Tuesday, November 29, 2016

The positive character of
The Religious Schools
 In UC Birote

********************************
آپریشن ردالفساد ۔۔۔۔۔۔ رینجرز کی بکوٹ پولیس کے ہمراہ بیروٹ میں دینی مدارس کی تلاشی ۔۔۔۔ 
آخر میں کلین چٹ دے دی گئی۔
یہ بات باعث اطمینان ہے کہ ۔۔۔۔ بیروٹ کے مدارس لوگوں میں تفرقہ بازی نہیں پھیلا رہے اور نہ بے معنی بحثوں میں ہی الجھا رہے ہیں۔
یو سی بیروٹ میں دوسری مسجد اور پہلا مدرسہ ۔۔۔۔ مولانا قاضی میاں نیک محمد علوی ؒ۔۔۔۔۔ نے 1838 میں کھوہاس سینٹرل بیروٹ میں قائم کیا، جس کے ٹرسٹی سردارمحمود خانؒ اور ان کے رفقا تھے۔
بکوٹ شریف کے تاجدار حضرت مولانا میاں قاضی پیر فقیراللہ بکوٹیؒ ۔۔۔۔۔ نے بھی اس مسجد میں 1895-1908 تک امامت و خطابت فرمائی اور اسی مسجد میں سرکل بکوٹ کا پہلا جمعہ بھی پڑھایا

*******************
 تحقیق و تحریر: محمد عبیداللہ علوی
*******************

 
The New
TESTAMENT
of
Union Council Birote
**************
بیروٹ: ہائر سیکنڈری سکول کے طلبا ٹائر جلا کر سکول سے محرومی پر احتجاج کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد، 3 فروری 2017
**************


وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا ۔۔۔۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
بیروٹ سکول کی بحالی، خالد عباس عباسی نے 4دسمبر کو اہلیان یو سی کا اجلاس بلا لیا
اس سکول کی عمارت کی تعمیر میں بزرگوں کی محنت اور ہماری مائوں بہنوں کے گہنوں کے عطیات بھی شامل ہیں
 سردیوں کی ایک میٹنگ میں طے پایا  تھاکہ خیبر سے کراچی تک چندہ کر کے اپنا سکول قائم کریں گے
مالکان نے سکول کی اراضی باقاعدہ محکمہ کو فروخت کی تھی، قبضہ کے کاغذات یو سی بکوٹ کے چیئر مین سردار محمد عرفان  خان کے حوالے کئے گئے تھے
اسی سال ریٹائر ہونے والے فور سٹار جرنیل مقصود عباسی اور امریکی خلائی ادارے ناساکے ڈائریکٹر نثار عباسی بھی بیروٹ کی اسی مادر علمی کےپروردہ ہیں
اجلاس میں  یو سی کے تمام سٹیک ہولڈرز کی شرکت ضروری ہے، اس میں یہ نہ دیکھا جائے کہ  کون کس جماعت یا گروپ سے وابستہ ہے
***************************
تحریر: عبیداللہ علوی
*************************** 
اوسیا اور بکوٹ جانے والے پرانے طلبا ہمیں اپنی تعلیم کے دوران ان دونوں مقامات کی جو سٹوریاں سناتے ہیں ، انہیں سن کر انکھوں سے اشک رواں ہو جاتے ہیں، ایسے میں بیروٹ کے تعلیمی متاثرین نے 1962  کی سردیوں کی اداس شاموں میں ایک میٹنگ کی جس میں طے پایا کہ ۔۔۔۔ خیبر سے کراچی تک چندہ کیا جائے گا اور ہم اپنا سکول قائم کریں گے ۔۔۔۔ جہاں ہم اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کر سکیں، سکول جاتے ہوئے کوئی ہماری راہ نہ روکے، پتھر نہ مارے یا ہمیں بیگار میں نہ پکڑے ۔۔۔۔ ہم سکول کیلئے حکومت کے پاس بھی جائیں گے ۔۔۔۔ علاقے کے مخیر حضرات سے بھی سکول کے لئے پتھر ، مٹی اور دیگر سامان کیلئے درخواست کریں گے ۔۔۔۔ علاقے کے بڑوں نے نوجوانوں کو اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی  اور یوں سکول کی تعمیر کے خواب کو عملی شکل دینے کیلئے بیروٹ کے ہر نوجوان، خواتین، ڈرائیوروں سمیت تمام پروفیشنلز اور بزرگوں نے اپنے کام سنبھال لئے ۔۔۔۔ صرف دوسال کے عرصہ میں کم و بیش 12 لاکھ روپے جمع کر لئے گئے، بیروٹ کی درد دل رکھنے والی ہماری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے گہنے اتار کر سکول کی تعمیر کیلئے دے دئیے ۔۔۔۔ روڈ کے ہمارے شہزادوں نے ملک بھر میں پھیلے ہوئے اہلیان کوہسار اور غیروں سے رابطے کئے اور جہاں سے امید تھی وہاں پہنچے اور اس وقت تک نہ اٹھے جب تک انہیں ۔۔۔۔ اپنی نسلوں کو زیور تعلیم سے اراستہ کرنے کیلئے ۔۔۔۔ حسب توفیق کرنسی مل نہیں گئی ۔۔۔۔ اہلیان کہو شرقی بالخصوص خانال برادری نے اس عظیم مقصد کیلئے اراضی کا عطیہ دیدیا، بیروٹ کی تمام بڑی چھوٹی برادریوں نے اپنے اپنے حصے کا کام سنبھالا، ایک برادری نے ۔۔۔۔ فی سبیل اللہ ۔۔۔۔ پتھر عطیہ کئے، دوسری نے ٹرک نمبر   308سےان کی سپلائی ممکن بنائی، ایک برادری نے اس سکول کی جستی چادریں ڈونیٹ کر دیں، کھڑکیاں، دروازے اور کینچیاں بھی اپنے نونہالوں کی اس تعلیمی درسگاہ کیلئے بیروٹ کی مستری برادری نے بلا معاوضہ بنائیں، دیواریں کھڑی کرنے کا مرحلہ آیا تو ۔۔۔۔ مستری برادری نے یہاں بھی اپنا ایثار دکھایا، دو دن اس سکول کی دیواروں کیلئے عطیہ کئے ۔۔۔۔ جمع شدہ رقم کو سیمنٹ، لکڑی سمیت دیگر مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا ۔۔۔۔ بیروٹ کے سکول کی یہ بلڈنگ صرف تین ماہ میں کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔ بیروٹ کے ممتاز سماجی کارکن عطا الرحمان عباسی کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ انہوں نے وہ دستاویزات جن پر مالکان اراضی نےسکول کی زمین کی رقم  وصول کی تھی محکمہ مال میں سابق ناظم بیروٹ طاہر فراز عباسی ایڈووکیٹ  کے ساتھ خود دیکھی تھی، سابق ناظم آفاق عباسی بھی کہتے ہیں کہ مالکان نے سکول کی اراضی باقاعدہ محکمہ کو فروخت کی تھی جبکہ سکول کے قبضہ کے کاغزات کو اس وقت کی متحدہ یو سی بیروٹ، بکوٹ کے چیئر مین سردار محمد عرفان  خان کے حوالے کیا گیا تھا، بعد میں یہ قبضہ کے کاغذات آفاق عباسی کی نظامت تک آتے آتے ۔۔۔ گمشدہ ۔۔۔۔ ہو گئے۔
بیروٹ کی اس مادر علمی کی تعمیر اور اس میں کلاسوں کے اجرا سے ایک نئی علمی تاریخ لکھی گئی، اسی سال ریٹائر ہونے والے فور سٹار جرنیل مقصود عباسی اسی درسگاہ کے قابل فخر سپوت ہیں، امریکی خلائی ادارے ناساکا ڈائریکٹر نثار عباسی بھی اسے کے ڈیسکوں پر پڑھا ہے، آج بیروٹ کے 31 پی ایچ ڈیز میں سے لگ بھگ 10 کا تعلق بھی اسی ہائر سیکنڈری سکول بیروٹ کی زلزلہ سے کرچی کرچی عمارت سے ہے، راقم الحروف بھی اسی کے ڈیسکوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکا ہے اور  آج اس قابل ہوا ہے کہ آج آپ سے مخاطب ہے۔
زندہ سماج کے زندہ لوگ اپنے دینی و تعلیمی اداروں کو ۔۔۔۔ اپنے پرکھوں کی علامت ۔۔۔۔ سمجھ کر انہیں محفوظ کرتے ہیں، آج ہماری تاریخ ان درسگاہوں کے ایک ایک پتھر پر کندہ ہے، اہلیان بیروٹ کا ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ ۔۔۔۔ اس سکول کو اجاڑنے میں اس نام نہاد مقامی قیادت کا بھی بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے کھمبیوں کی طرح اگنے والی بیروٹ کی تعلیمی دکانوں کو پروموٹ کرنے کیلئے ہمارے پرکھوں کی اس عظیم نشانی کو پامال کیا، اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو پھر ہم کیا سوچ رہے ہیں، کیا اب بھی ہم اپنے سٹیٹس کیلئے اس درسگاہ کو فراموش کر دیں گے۔۔۔۔؟
یو سی بیروٹ سے رکن ضلع کونسل خالد عباس عباسی اگرچہ بیروٹ کیلئے خطیر فنڈز تو نہیں لا سکے ہیں تاہم ان کے اس فیصلے کو داد دی جا سکتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ۔۔۔۔4 دسمبر بروز اتوار ۔۔۔۔ اس ہائیر سیکنڈری سکول بیروٹ کی چندے سے تعمیر ہونے والی اس عمارت کے تحفظ اور بحالی کیلئے اہلیان بیروٹ کا ایک اہم اجلاس اسی سکول میں بلایا ہے جس میں سکول کی والدین اور اساتذہ کی کمیٹی کے ارکان کے علاوہ  سکول کے سابق طلبا کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، کیا یہ اجلاس واقعی کوئی مقاصد حاصل کر سکے گا یا اس میٹنگ کا نتیجہ 40 ماہ قبل ایم پی اے سردار فرید خان کے اسی مقام پر ہونے والے جلسہ کی طرح ۔۔۔۔ نشستند، گفتند، خوردند و برخاستند تک ہی محدود رہے گا ۔۔۔۔ یہاں میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ۔۔۔۔ آپ سکول کی اراضی کو قبضہ گروپ سے آزاد کروانے کا بندوبست کریں ۔۔۔۔ بیروٹ میں ایسے ہمدرد اور ہمارے بچوں کے مستقبل کے سلسلے میں پریشان افراد موجود ہیں جو ۔۔۔۔ اپنی ذاتی جیب سے سکول کی شاندار بلڈنگ کو دوبارہ کھڑی کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں ۔۔۔۔ ان کے بزرگوں نے یہ عمارت ہمارے حوالے کی تھی مگر تاریک ذہنوں نے ایک سازش کے تحت اسے قانونی اور سیاسی مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے ۔۔۔۔ قابل فخر فرزند بیروٹ بریگیڈئیر (ر) مصدق عباسی کئی ایک فورمز پر اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ۔۔۔۔ وہ اس بلڈنگ کو دوبارہ کھڑا کرنے میں دامے، درہمے یا جو کچھ ہو سکا وہ کریں گے ۔۔۔۔ ان کے اور ان جیسے دیگر اکابرین بیروٹ کا نہ صرف شکریہ ادا کرنا چائیے بلکہ ان کی اس کاوش کا خیر مقدم بھی کیا جانا چاہئیے۔
یہاں پر چند تجاویز بھی ہیں ۔۔۔۔ گر قبول افتد، زہے عز و شرف۔
1 ۔۔۔۔  رکن ضلع کونسل خالد عباس عباسی کے طلب کردہ اس اجلاس میں محدود اڑان کے بجائے یو سی بیروٹ کے تمام سیاسی، سماجی اور دینی سٹیک ہولڈرز کی شرکت بھی ضروری ہے، کیونکہ جب اس سکول کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا ۔۔۔۔ اس وقت کوئی بھی ایوب خان، باچا خان یا کسی اور کا نہیں تھا ۔۔۔۔ سب کے سب بیروٹوی تھے ۔۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے ان تمام بزرگوں کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرماوے۔
2۔۔۔۔ اس وقت کرنے کا سب سے اہم کام سکول کی اراضی واگزار کرانا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ ۔۔۔۔ مالکان اراضی کی بھی اسی طرح ڈیمانڈ پوری کر دی جائے جیسے نصف صدی قبل ان کے بزرگوں کی پوری کی گئی تھی خواہ اس کیلئے ہمیں پھر ایک بار ملک بھر سے چندہ کیوں نہ کرنا پڑے۔
3 ۔۔۔۔ صرف میٹنگیں کرنے سے کچھ نہیں ہو گا، سکول کے پتھر گارے کے تحفظ اور اس کی مکمل بحالی کیلئے ۔۔۔۔ ان جہاندیدہ، تجربہ کار اور اندر اور باہر سے نونہالان علاقہ کے مستقبل کیلئے فکرمند ان افراد کی با اختیار کمیٹی بھی بنائی جانی چاہیئے جو اس کار خیر کیلئے وقت بھی دے سکیں، اس میں بیروٹ کی تمام برادریوں، پروفیشنلز، سماجی جذبہ رکھنے والوں اور تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی گروپوں اور جماعتوں کے درد دل اصحاب کا انتخاب کیا جائے، اس کمیٹی کا مہینہ میں دوبار اجلاس ہو، اس سلسلے میں ہونے والی پیشرفت سے ،مقامی پریس کو بھی آگاہ رکھا جائے۔
4 ۔۔۔۔ بھلے لوگو، اس وقت اس خطہ میں تحصیل سرکل بکوٹ کے قیام کی کوششیں ہو رہی ہیں، کیا ہم اپنا اور اپنے بزرگوں کی کھوئی ہوئی اس نشان منزل کو دوبارہ حاصل کر سکیں گے، اپنے دائیں بائیں دیکھنے اورخدائی رسد حاصل کرنے  کی امید تو ان لوگوں کو کرنا چاہیے جو خود بھی کچھ کر سکیں، ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہم کس معجزے کے انتظار میں ہیں ۔۔۔۔؟ اٹھیے ۔۔۔۔۔ میری، آپ کی اور ہم سب کی اس مادر علمی کی زلفیں سنوارنے کیلئے گھر سے نکلئے اور 4 دسمبر کا کچھ وقت ہائر سیکنڈری سکول کی اس زلزلہ زدہ اور قبضہ مافیا کے شکنجوں میں جکڑی اپنی مادر علمی کو دیجئے ۔۔۔۔ یہ فرض کفایہ نہیں بلکہ فرض عین ہے۔ ؎
خدا نے آج تک ۔۔۔۔ اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد، 29 نومبر 2016

No comments:

Post a Comment